ترکی بکریاں
شکاگو نیچرل ہسٹری میوزیم کے شعبہ حیوانیات کے سربراہ ڈاکٹر کارل شمنٹ نے یہ عجیب اور دلچسپ واقعہ ایک مجلس میں سنایا: یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ابھی لڑکا تھا۔ میرے والد نے کچھ ترکی بکریاں خرید لیں اور انہیں چراگاہ کے اس حصے میں چھوڑ دیا جہاں پہلے بھیڑیں چرا کرتی تھیں۔ قریبی جنگل میں ایک خونخوار کتا رہتا تھا جو اکثر چراگاہ میں گھس کر کسی نہ کسی بھیڑ کو لقمہ بنا لیتا۔ اُسے ہلاک کرنے کی بڑی کوشش کی گئی‘ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ ایک روز رات کے وقت یہ کتا چپکے چپکے سے چراگاہ میں گھس آیا اور بکریوں کو بھیڑوں کی کوئی نئی قسم سمجھ کر حملہ کر دیا۔ بھیڑیں ایسے موقع پر افراتفری میں بھاگتیں اور چراگاہ کے کسی کونے میں سمٹنے کی کوشش کرتیں لیکن ترکی بکریوں نے جان بچانے کیلئے اندھا دھند بھاگنے دوڑنے کی بجائے ایک تربیت یافتہ فوجی دستے کی مانند اپنے ناخواندہ مہما ن کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ بکریوں کے تیز نوکیلے سینگوں کا رخ کتے کی جانب تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا حلقہ تنگ ہونے لگا۔ کتے کو پہلے کبھی ایسی صورتحال سے واسطہ نہ پڑا تھا۔ وہ گھبرا گیا اور خطرے کی بو سونگھتے ہی دائرے کے اندر دیوانہ وار چکر کاٹنے لگا‘ لیکن فرار کا کوئی راستہ نہ ملا۔ صیاد اب خود صید بن چکا تھا۔ حلقہ تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا تھا اور بکریاں شانے سے شانہ ملائے کھڑی تھیں۔ اب دلچسپ کھیل شروع ہو گیا۔ جونہی کتا ایک طرف لپکتا‘ دوسری طرف سے کوئی بکری اس کی پیٹھ میں اپنے سینگ چبھوتی اور تیزی سے واپس اپنی جگہ چلی جاتی۔ کتا درد سے بلبلاتے ہوئے رخ بدلتا اور اسی لمحے کوئی دوسری بکری مخالف سمت سے وار کر دیتی۔ کتا بد حواس ہو کر دائرے میں اِدھر اُدھر چکر کاٹنے لگا۔ یہ جنگ بڑی دیر تک جاری رہی ۔ آخر کار وہ کسی نہ کسی طرح بکریوں کے محاصرے سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور خوف و دہشت سے چیختا چلاتا جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔ پھر اسے چراگاہ کے نزدیک پھٹکنے کی کبھی جرا ¿ت نہ ہوئی۔
بدواور چڑیا کا بچہ
نیویارک کے ایک لڑکے اوتھ برگ کو سنٹرل پارک میں چڑیا کا ایک بچہ ملا ۔ وہ اسے اٹھا کر اپنے فلیٹ میں لے گیا اور روبن کے ایک خالی گھونسلے میں رکھ دیا۔ ڈراپر اور موچنے کی مدد سے اسے غذا کھلاتا رہا۔ مکھیاں‘ کیڑے ‘ مکوڑے‘ بسکٹ اور انڈے کے ٹکڑے کھا کھا کر چڑیا کا بچہ جلد ہی بڑا ہو گیا۔ اوتھ نے اس کا نام صنوبر رکھ دیا کیونکہ اس کا رنگ بھی صنوبر کے تنے کی طرح تھا۔ اُڑنا سکھانے کیلئے وہ چڑیا کو درخت کی شاخ پر بٹھا دیتا اور بسکٹ کا ٹکڑا دکھا کر چوں چوں کی آواز نکالتا۔ اس کی آوز پر چڑیا لپکتی اور رفتہ رفتہ اس نے اُڑنا سیکھ لیا۔ عام لوگوں کیلئے تمام چڑیوں کی آواز یکساں ہوتی ہے‘ مگر اوتھ بے شمار چڑیوں میں بھی صنوبر کی آواز پہچان لیتا اور یہ بتا دیتا کہ وہ غصے اور جوش میں بول رہی ہے یا حیرانی کے عالم میں۔ اوتھ کہیں جانے کیلئے لفٹ میں بیٹھتا تو صنوبر اس کے کندھے پر سوار ہو جاتی اور جب دونوں گھوم کر واپس آتے تو وہ پُھر سے اڑ کر کمرے میں جا پہنچتی اور اپنے مالک کو خوش آمدید کہتی۔آئس کریم‘ سیب اور کینڈی کے ٹکڑے صنوبر کو بہت مرغوب تھے۔ اڑوس پڑوس کے بچے اکثر اس کی خاطر تواضع کرتے‘ چڑیا اُڑ کر ان کے کندھوں پر جا بیٹھتی اور وہ اپنی آئسکریم اور کینڈی میں سے کچھ نہ کچھ اس کو ضرور دیتے۔ جونہی وہ کسی شخص کے ہاتھوں میں آئس کریم دیکھتی ‘ چہچہاتے ہوئے اس کے سر پر اڑنے لگتی۔ اوتھ اور اس کے دوست اکثر صنوبر کے ساتھ ایک دلچسپ کھیل کھیلا کرتے۔ وہ کینڈی کا ٹکڑا ایک دوسرے کی طرف اچھالتے اور صنوبر بجلی یا کتے کے بچے کی طرح جو گیند کے پیچھے لپکتا ہے کینڈی کے تعاقب میں ایک لڑکے سے دوسرے لڑکے کی طرف اڑتی رہتی۔ فلیٹ کے پاس سے گزرنے والے راہگیر اکثر ایک چڑیا کوبے تکلفی سے اپنے کندھوں پر آ کر بیٹھتے دیکھ کر حیران ‘ ششدر رہ جاتے ۔ کبھی کبھی بڑی پُرلطف صورتحال بھی پیدا ہو جاتی۔ ایک دفعہ ایک خاتون چڑیا کو اپنے سر پر منڈلاتے دیکھ کر اس قدر حواس باختہ ہوئی کہ اپنا مفلر اتار کر ہوا میں لہرانے لگی تاکہ چڑیا کے حملے سے محفوظ رہ سکے۔ایک بوڑھے شخص کے ساتھ اور بھی دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ یہ موٹا آدمی چشمہ لگائے اخبار پڑھتا فٹ پاتھ پر چلا جا رہا تھا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں کون آئسکریم تھی۔ وقفے وقفے سے آئس کریم پر بھی منہ مارتا جاتا۔ صنوبر سڑک کے کنارے ایک درخت پر بیٹھی تھی ۔ آئسکریم کی جھلک پاتے ہی اڑی اور بوڑھے کے کندھے پر جا بیٹھی۔ بوڑھے کو خبر تک نہ ہوئی۔ جونہی اس نے بے خیالی میں آئس کریم پر منہ مارا صنوبر نے لبوں پر کاٹ کھایا۔ بوڑھے نے حیرت اور تعجب سے کون کی طرف دیکھا اور پھر چڑیا کو بھگانے کیلئے کون کو تیزی سے ہلانے لگا۔ صنوبر لذیذ آئسکریم سے کب دستبردار ہونے والی تھی۔ وہ اپنی جگہ پر ڈٹی رہی۔ چڑیا کو اڑانے کی اس کی جدوجہد میں بوڑھا سامنے سے آتے ہوئے ایک اور شخص سے ٹکڑا گیا اور حواس باختہ ہو گیا اور اپنا ہیٹ سنبھال کر سر پٹ بھاگ اٹھا۔ صنوبر کی موجودگی میں اوتھ کو الارم کلاک کی ضرور ت نہ رہی۔ وہ صبح سویرے آتی اور اس کے بال کھینچ کر اسے جگاتی۔ اگر وہ نہ اٹھتا تو اس کی گردن کے پاس بیٹھ جاتی۔ اوتھ کے نہ اٹھنے پر اس کی گردن پر چونچ مارتی۔ آہستہ آہستہ اوتھ ایک طرف کھسکتا رہتا اور جب اس کی آنکھ کھلتی تو بدو کی طرح اپنے آپ کو بستر کے ایک کنارے پر پاتا اور باقی بستر صنوبر کے قبضے میں ہوتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں